مکمل مختصر کہانی
“جو تم نے میرے ساتھ کیا ہے، دیکھنا ایک دن تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ تمہاری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ یہ ایک قرض ہے جو تمہاری بیٹی اتارے گی۔” یہ آخری میسج تھا جو ابرار کو اپنے پہلے پیار کی طرف سے آیا تھا۔ اس کے بعد اریبہ ہر قسم کا رابطہ ختم کر کے گمنامی میں چلے گئی تھی۔
ہر سال تین نومبر کی تاریخ ابرار کو بےچین کر دیتی تھی۔ آج تین نومبر کو بھی وہ چاہ کر بھی ان فقروں کا بھول نہیں پا رہا تھا۔ اس نے پچھلے پندرہ برسوں میں لاکھ کوشش کی لیکن ان فقروں کی گونج سے اپنی جان نہ چھڑا پایا۔
“بابا! آپ رو کیوں رہے ہیں؟” یادوں میں کھوئے ہوئے ابرار کو پتہ ہی نہ چلا کب اس کی آٹھ سالہ بیٹی ارحم اس کے پاس آ گئی۔ بےاختیاری سے ابرار نے انگلیوں کے پوروں سے اپنی گالوں سے اشکوں کی بوندیں صاف کیں جو نہ جانے کب اور کیسے آنکھوں کے دریچوں سے باہر نکل پڑیں تھیں۔
“کچھ نہیں بیٹی! تم سناؤ، ماما کدھر ہیں۔” ابرار نے بیٹی کا دھیان بٹانے کے لیے سوال پوچھا۔
“وہ کچن میں کھانا بنا رہی ہیں۔” معصوم ارحم نے کہا اور ٹیبل پر پڑے گلدان میں رکھے پھولوں سے کھیلنے لگی۔
“کیا میرے گناہوں کی سزا یہ معصوم بھگتے گی؟” ابرار نے اپنی بیٹی کے معصوم سے چہرے کی طرف دیکھ کر سوچا۔ اس سے یہ سوچ برداشت نہ ہوئی، وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کی جانب لپکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازہ زور سے کھلا اور ایک 45 سالہ عورت گھبرائی ہوئی اندر داخل ہوتے ہی بولنے لگی، “ڈاکٹر صاحبہ! وہ۔۔۔”
سامنے کا منظر دیکھ کر اس کے الفاظ دم توڑ گئے۔
ایک لڑکی سفید گاؤن پہنے، سکارف لیے سجدے میں پڑی تھی۔ اس لڑکی کو نماز پڑھتے دیکھ کر، وہ عورت خاموش ہو گئی۔
لڑکی نے سجدے سے سر اٹھایا اور التحیات کی شکل میں بیٹھ گئی۔ عورت نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور دیکھتی رہ گئی۔ سجدے سر اٹھاتے ہوئے اس لڑکی کے لبوں پر ہلکی سی مسکان اور آنکھوں میں نمی تھی۔ لیکن التحیات میں بیٹھتے ہی لڑکی کے چہرے سے یہ تاثرات ختم ہو گئے۔
“ڈاکٹر صاحبہ! میرے بیٹے کو پیٹ میں شدید درد ہو رہی ہے۔” جیسے ہی اس لڑکی نے سلام پھیرا، عورت فوراً بول پڑی۔
وہ لڑکی فوراً کھڑی ہوئی اور عورت کی طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگی، “روم فائیو میں نا؟ جس کا کل اپنڈکس کا آپریشن ہوا ہے.”
عورت نے اثبات میں سر ہلایا اور تیزی سے باہر نکلی۔
ایک انجکشن کے بعد مریض اب پر سکون ہو کر سو رہا تھا۔
“آنٹی! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، آپریشن ہوا ہے نا تو اس کی وجہ سے یہ درد تو ہو گا لیکن جلد ٹھیک ہو جائے گا۔”
عورت نے تشکر بھری نظروں سے اس لڑکی کی جانب دیکھا جس کے لب اپنا کام کرتے ہوئے بھی ہلتے رہے تھے۔
“یقیناً کسی بہت ہی نیک گھرانے کی بچی ہے۔” عورت نے سوچا۔
اتفاق سے لڑکی نے پرس سے کچھ نکالا تو اس کا شناختی کارڈ نکل کر عورت کے قدموں میں آ گرا۔
اس نے جھک کر کارڈ اٹھایا اور لڑکی کو واپس کرنے لگی۔
ایک نظر لڑکی کے والد کے نام کی جگہ پڑی تو عورت کو جیسے سکتہ ہو گیا۔
“ابرار مجید۔”
یہ نام وہ کیسے بھول سکتی تھی، اور بھی تو بہت سے لوگون کا یہ نام ہو سکتا ہے۔
“تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟” عورت نے پوچھا تو لڑکی جو مریض کی فائل پر کچھ لکھنے میں مصروف تھی، بنا سر اٹھائے جواب دیا، “وہ محکمہ ہیلتھ میں ایک کلرک تھے لیکن کافی عرصہ پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔”
اب تو شک و شبے کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچی۔ اریبہ نے دل میں سوچا۔
“باپ جو کرتا ہے اس کی سزا اس کی اولاد بھی بھگتی ہے نا، جیسے کہتے ہیں زنا ایک قرض ہے جو اس کی بہن، بیٹی وغیرہ اتارے گی۔” اریبہ سے نہ رہا گیا، بےاختیار اس کے منہ سے نکلا۔
لڑکی نے اپنا جھکا سر اٹھایا اور اس عجیب سے سوال پر قدرے تعجب سے اریبہ کی طرف دیکھا۔ ایک توقف کے بعد ارحم بولی، “آنٹی! کیا ایسا بھی ہوتا ہے کہ جرم کوئی کرے اور اس کی سزا کسی اور کو دی جائے؟ ایسا تو دنیا میں نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ ایسے کیسے کسی معصوم کو سزا دے سکتے ہیں؟ سورت النجم میں فرماتے ہیں، “کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔” ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے۔ دوسرے یہ کہ ایک شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ ایک ضعیف حدیث ضرور ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاک دامن رہو تاکہ تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں۔ اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ انسان کے گھر میں ایک گناہ سر عام ہونے لگ جائے، نہ اسے برا سمجھا جائے تو گھر والے بھی اس گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کی مثال آپ کو ایلیٹ گھرانوں کے ماحول میں مل جائے گی۔” ارحم نے اپنی بات مکمل کی اور واپس جانے لگے۔
واپس جاتے جاتے اچانک واپس مڑی اور کہنے لگی، “جو بات آپ نے کی وہ دونوں فریقوں کی رضامندی سے ہوتا ہے پھر سزا کے وقت صرف باپ ہی کیوں؟ پھر اس کا قرض تو اس لڑکی کو بھی اتارنا پڑے گا، اپنی اولاد کی شکل میں۔ اس لیے اس بات کی کوئی عقلی، مذہبی و اخلاقی بنیاد نہیں۔” اتنا کہہ کر لڑکی ارحم باہر چلی گئی۔
آخری فقرہ ایک تھپڑ کی طرح اریبہ کے منہ پر لگا جس نے اس کے چہرے کا رنگ بدل دیا تھا۔
غلطی تو اریبہ کی بھی تھی۔ بےشک بہترین طرز زندگی وہ ہی ہے جو اسلام ہمیں دے چکا۔ ہمیں وہی ملتا ہے جو ہمارے مقدر میں ہوتا ہے۔
مقدر کو مقدر سمجھ کر اللہ سے دعا مانگتے ہوئے اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔
انسان خود اپنا مقدر بنانے کی کوشش میں اپنا مقدر خراب کر بیٹھتا ہے۔
ختم شد
